۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سجاد علی مطھری

حوزہ/ تمام شیعہ مفسرین اور اہلسنت کے اکثر علماء اور مفسرین نے آیت تطہیر کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ آیت امیرامومنین علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم اسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

تحریر: مولانا سجاد علی مطھری

حوزہ نیوز ایجنسی। ولادت حضرت زہرا سلام اللہ علیھا
20 جمادی الثانی ، پیغمبر اسلام کی بعثت کے پانچویں سال آسمان حجاز کی وسعتوں میں، مکہ کی پہاڑيوں کے درمیان، خانہ کعبہ کے سائے تلے اس آنگن میں جہان پیغمبر اسلام کے ملکوتے لب آیات قرآن کے انوار بکھیر رہے تھے اس گھر میں جس گھر کو وحی کے فرشتے خوب پہچانتے تھے، جہان صبح و شام پیغمبر اسلام (ص)کے نماز کی آواز اور تاریکی شب میں تلاوت قرآن زمین کو رشک آسمان بنائے ہوئے تھیں، اس پیغمبر اکرم (ص) اور خدیجہ علیہا السلام کے بیت اشرف میں ایک بچی پیدا ہوئی۔ اور پیغمبراسلام کی بیٹی، نونہال رسالت ، پیکر عصمت زمین پر خلافت الہیہ کی ہمسر، ساری دنیا کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے اس دنیا میں قدم رکہا ۔ (1)

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا والدین کے سائے میں:
بی بی دو عالم کے پدر بزگوار ہر توصیف اور تعریف سے بے نیاز ہیں۔
حدیث قدسی میں ارشاد ربّ العزت ہے:
لولاک لما خلقت الافلاک...
ترجمہ: اے میرے حبیب اگر آپ نہ ہوتے تو میں کائنات کو خلق ہی نہ کرتا۔ (2)
یہ حدیث سند ہے اس بات پر کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پدر گرامی اس قدر عظیم تھے کہ خلقت کائنات کا سبب بنے اور خداوند عالم نے انهیں خلق عظیم کے لقب سے نوازا۔

حضرت زہرا (س) کی مادر گرامی
آپ کی مادر گرامی کا نام خدیجہ بنت خویلد ہے جو سرزمین حجاز کی پاک دامن، نیک طینت اور دولت مند خاتون تھیں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی کے ابتدائی پانچ سال اپنے والده کی آغوش تربیت میں گزارے وه ماں جس کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص نے فرمایا: خدیجہ اس امت کی بہترین عورتوں میں سے ہیں(3)
یہ تاریخ اسلام کی ایک عظیم حقیقت ہے کہ آنحضرت کے پیغام رسالت کے نشر و اشاعت میں جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کے فدا کاریوں کا بہت بڑا حصہ ہے اور ایک حدیث کے مطابق اسلام اور رسالت مآب کو جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کے مال اور حضرت علی علیہ اسلام کے جہاد سے ترقیاں نصیب ہوئیں۔ بعثت کے دسویں سال یہ عظیم الشان بی بی اس دنیا سے رخصت ہوئیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ایک فدا کار ماں کی محبتوں سے محروم ہو گئیں۔
جس سال جناب خدیجہ (س) کا انتقال ہوا، رسول خدا (ص) نے اس سال کو عام الحزن کا لقب دیا۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا شعب ابیطالب میں:
بعثت کے چھٹے سال جب قریش نے رسول خدا (ص) اور بنی ہاشم کا شعب ابیطالب میں اقتصادی اور اجتماعی محاصره کیا تواس وقت بی بی زہرا (س )کی عمر مبارک فقط دو سال تھی اپنے پدر گرامی کے ہمراہ تین سال تک شعب ابیطالب مین قید و بند کی زندگی گزارتی رهیں اور اپنے والدین اور دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ بھوک و پیاس اور دیگر سختیان برداشت کیں۔

فضائل حضرت زہرا سلام اللہ علیہا قرآن و حدیث کے آئینے میں:
سوره احزاب کی آیت نمبر 33 میں ارشاد رب العزت ہے:
إِنما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيرا
بس الله کا اراده یہ ہے، اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکهے اور اس طرح پاک و پاکیزه رکھے جو پاک و پاکیزه رکھنے کا حق ہے.
تمام شیعہ مفسرین اور اہلسنت کے اکثر علماء اور مفسرین نے آیت تطہیر کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ آیت امیرامومنین علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم اسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

حضرت زہرا سلام الله علیہا مباہلہ میں:
عام طور پر راویان حدیث اور صاحبان تاریخ و تفسیر نے سوره آل عمران آیت 61 کی تفسیر کرتے ہوئے صراحت سے ذکر کیا ہے کہ جب پیغمبر خدا نجران کے عیسائیوں سے مباهلہ کرنے تشریف لے گئے تو جن پانچ افراد کو اپنے ساتھ لے گئے ان میں سے ایک ذات بی بی دو عالم کی بھی تھی اور جب حضرت علی علیہ السلام اور بی بی زہرا (س )امام حسن و حسین علیہما السلام مباہلے کے لئے تشریف لائے تو پیغمبر خدا نے اپنے اہل بیت سے فرمایا: جب میں دعا کروں تو آپ لوگ آمین کہیے گا۔ یہ جملہ ثابت کرتا ہے کہ بی بی دو عالم کا آمین کہنا دوسرے تین افراد کی طرح پیغمبر اکرم کی حاجت پورے ہونے میں اثر انداز ہے ۔ اور اس کے علاوه بہت ساری سورتیں اور آیات جیسے سوره کوثر، سوره دهر، سوره احزاب آیت 56، سوره شورا آیت 23، سوره نور36، سوره اسراء آیت26، وغیره مطلب یہ کہ پورا قرآن قصیده حضرت زہرا (س )ہے ۔اور احادیث کے مطابق حضرت زہرا (س) کی عظمت قابل توصیف نهیں، ایک معروف حدیث کہ جس میں پاک پیغمبر اکرم (ص)نے عبدالرحمن ابن عوف سے اپنے اہل بیت کے بارے میں سفارش کرتے ہوئے فرمایا: اے عبدالرحمن اگر تمام حلم کو سمیٹ کر مجسم کیا جائے تو یقینا وه علی علیہ السلام کی صورت مین ظاہرہوگا، اور اگر تمام عقلیں یکجا ہو کر تجسم اختیار کریں تو بیشک وه حسن علیہ السلام بنیں گے، اور اگر پوری سخاوت کو ایک پیکر میں سمو دیا جائے تو بیشک حسین علیہ السلام نظر آئینگے، اسی طرح اگر تمام خوبیاں اور کمالات کسی ایک ذات میں جمع ہو جائیں تو وه فاطمہ سلام اللہ علیہا کہلائینگی بلکہ فاطمہ (س) کی عظمت اور رفعت اس سے بھی بلند و بالاتر ہے، بیشک میری بیٹی فاطمہ (س)روئے زمین پر شرف و فضیلت نیز عنصر وجودی کے اعتبار سے سب سے افضل و بر تر ہیں۔ایک اور حدیث میں رسول خدا (ص)نے فرمایا: روز قیامت عرش کی پشت سے منادی کی ندا آئے گی کہ اے اہل محشر اپنے آنکھیں جھکا لو تاکہ بنت رسول الله(ص) اپنے بیٹے حسین کا خون بھرا کرتہ لے کر گذر جائیں. . . . . اور اسکے بعد بی بی دو عالم خدا سے التجا کرتے ہوئے کہیں گی: بارالہا حسین کی مصیبت پر گریہ کرنے والوں کے حق میں میری شفاعت قبول کر، تب خداوند عالم کی ذات حسین پر آنسوں بہانے والوں کے سلسلے میں فاطمہ (س)کی شفاعت کو قبول فرمائےگا۔

آنحضرت سے ایک اور روایت میں منقول ہے کہ جناب سلمان فارسی سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے سلمان سو مواقع ایسے ہیں کہ جہاں فاطمہ کی محبت انسان کو فایدہ پنہچائی گی جس مین آسان ترین مراحل موت، قبر، میزان، حشر و نشر، حساب و کتاب اور پل صراط ہیں لہذا جس سے میرے بیٹی فاطمہ راضی ہے میں اس سے راضی ہوں اور جس سے وه غضبناک ہوں میں اس سے غضبناک ہوں اور جس سے میں غضبناک ہوا اس سے خدا غضبناک ہوگا۔
والحمد لله ربّ العالمین

حواله جات:
۔ کشف الغمہ ، ج، ص 4- مناقب ابن شہر آشوب، ج 3 ،ص 132
2۔ قطره ای از دریای فضائل اهل بیت، جلد 1 ،ص 418
3۔ تذکره الخواص ،سبط ابن جوزی، ص 203 ، کشف الغمه ص 76
4۔ بحار ج 16، ص 8 الی 13
۵۔اعلام الهدایه ص 67، 68
۶۔منتهی الاعمال ص 63، 64جلد 1 ص 287 ۷۔امالی طوسی جلد 1 ص 254، کافی
۸۔کشاف، زمخشری جلد 1،ص369
۹۔مقتل خوارزمی جلد1 ص60،
۱۰۔ فرائدالسمطین جلد2 ص68
۱۱۔کفایت الطالب ص 212 ،
۱۲۔ میزان الاعتدال جلد 2 ص 18
۱۳۔مقتل خوارزمی جلد 1 ص 60،

تبصرہ ارسال

You are replying to: .